دیکھنے میں لگ رہا ہوں بیس کا
دیکھنے میں لگ رہا ہوں بیس کا
ہو گیا ہوں اس برس چالیس کا
سوچتا ہوں عقد کر کے دیکھ لوں
ایک دن مرنا ہے مر کے دیکھ لوں
بیوی لانی ہے مجھے وہ چھانٹ کر
رکھ سکوں گھر میں جسے ڈانٹ کر
جسم اس کا بعد میں پھولے نہیں
جب چلے سیدھی رہے جھولے نہیں
جیب اس کے باپ کی خالی نہ ہو
باپ ماں کالے ہوں وہ کالی نہ ہو
کم سے کم سرکے تو سیدھے بال ہوں
آنکھیں نیلی اور گالیں لال ہوں
ہرطرف سے چاہے ہیوی وہٹ ہو
عمر کم ہو کم زباں ‘ کم پیٹ ہو
بات کرتی ہو ہمیشہ پیار سے
نرس جیسےکرتی ہے بیمار سے
بہیں چاہے جتنی ہوں بھای نہ ہو
ریڈیو ٹی وی پہ وہ آی نہ ہو
اک طرف چادر وہ لٹکاتی نہ ہو
ویسٹ اوپن کپٹرے سلواتی نہ ہو
شعر کہ لیتی ہو وہ آرام سےa
جن کو چھپواں میں اپنے نام سے
میں ملوں جس سے بھی وہ بولے نہیں
راز میرے جان کر کھولے نہیں
ہو غزل لمبی سخن موٹا سا ہو
شعروزنی قافیہ چھوٹا سا ہو
بیوی اس صورت کی مجھ کو چاہیے
ہو نظر میں کوی تو فرمایے!
دیکھنے میں لگ رہا ہوں بیس کا
ہو گیا ہوں اس برس چالیس کا
سوچتا ہوں عقد کر کے دیکھ لوں
ایک دن مرنا ہے مر کے دیکھ لوں
بیوی لانی ہے مجھے وہ چھانٹ کر
رکھ سکوں گھر میں جسے ڈانٹ کر
جسم اس کا بعد میں پھولے نہیں
جب چلے سیدھی رہے جھولے نہیں
جیب اس کے باپ کی خالی نہ ہو
باپ ماں کالے ہوں وہ کالی نہ ہو
کم سے کم سرکے تو سیدھے بال ہوں
آنکھیں نیلی اور گالیں لال ہوں
ہرطرف سے چاہے ہیوی وہٹ ہو
عمر کم ہو کم زباں ' کم پیٹ ہو
بات کرتی ہو ہمیشہ پیار سے
نرس جیسےکرتی ہے بیمار سے
بہیں چاہے جتنی ہوں بھای نہ ہو
ریڈیو ٹی وی پہ وہ آی نہ ہو
اک طرف چادر وہ لٹکاتی نہ ہو
ویسٹ اوپن کپٹرے سلواتی نہ ہو
شعر کہ لیتی ہو وہ آرام سے
جن کو چھپواں میں اپنے نام سے
میں ملوں جس سے بھی وہ بولے نہیں
راز میرے جان کر کھولے نہیں
ہو غزل لمبی سخن موٹا سا ہو
شعروزنی قافیہ چھوٹا سا ہو
بیوی اس صورت کی مجھ کو چاہیے
ہو نظر میں کوی تو فرمایے!
you must read this post also