محبت کیوں کرو گر ہو نہیں سکتی وفا مجھ سے
محبت کیوں کرو گر ہو نہیں سکتی وفا مجھ سے
یہ تم نے کیا کہا مجھ کو یہ تم نے کیا کیا مجھ سے
سمجھ رکھا ہے مجبور وفا کوشی جو ظالم نے
ملا کرتا ہے کس کس ناز سے وہ بے وفا مجھ سے
محبت کی بھی کیا تاثیر ہے بے تاب ہیں دونوں
ہوا ہے خاتمہ ان پر ہوی تھی ابتدا مجھ سے
بتان ماہ رو کے حسن پر ایمان لایا ہوں
انہیں کو دیکھ کر ہوتی ہے اب یاد خدا مجھ سے
کہیں دشمن سے بے شک مل کے وہ بیتاب آے ہیں
جبھی بے اختیار آج ان کو آتی ہے حیا مجھ سے
چھپاتے ہیں جسے وہ پردہ بے اعتنای میں
محبت کہی رہی ہے حال اسی کا برملا مجھ سے
تمہارے منہ سے یہ تکرار بھی پر لطف ٹھرے گی
وہی باتیں سہی جو کر چکے ہو بارہا مجھ سے
یہ باز بے رخی دیکھو کہ برم غیر میں گویا
شناسا ہوں نہ میں ان کا نہ ہیں و ہ آشنا مجھ سے
سمجھ میں کچھ نہیں آتا یہ کیا انداز ہے تیرا
کبھی ہٹ بیٹھنا مجھ سے ‘کبھی کھل کھیلنا مجھ سے
خیال ایک ان کا باقی تھا سو باقی اب بھی ہے حسرت
سب غم اور کیا لینے کو آی تھی قضا مجھ سے
you must read this post also