اک حسد دیوار تو ہے اک حصار در تو ہے Parveen Shakir Love Poetry

اک حسد دیوار تو ہے اک حصار در تو ہے Parveen Shakir Love Poetry

اک حسد دیوار تو ہے اک حصار در تو ہے

یہ بھی کیا کم ہے کہ اپنی جنگ میں تنہا نہیں

کار زار زندگی میں میر اک لشکر تو ہے

کون ہے اب تک عناصر کو بہم رکھے ہوے

موسم بے چہرگی میں کوی صورت گر تو ہے

گھر سے نکلی تو خبر بن جاے گی آپس کی بات

جو بھی قصہ بے ابھی تک صحن کے اندر تو ہے

اک جھلک اس کے ارادوں کی یہاں بھی دیکھ لی

فیصلے کے باب میں گو عرصہ محشر تو ہے

سانحہ دو نیم ہونے کا پرانا تو نہیں !

اور دلوں میں بھی’ ابھی تاریخ کا کچھ ڈر تو ہے

ڈھونڈے گا پھر افق کھوی ہوے پرواز کا

دیکھنے میں آج یہ طایرشکستہ پر تو ہے

آسمان سبز گوں پر ایک تارہ ایک چاند

دسترس میں کچھ نہ ہو یہ خوشنما منظر تو ہے

اک حسد دیوار تو ہے اک حصار در تو ہے Parveen Shakir  Love Poetry

you must read this poetry also

دل اسے چاہے جسے عقل نہیں چاہتی ہے

Leave a Comment

DMCA.com Protection Status