جشن سا آٹھ پہر دل میں ہے
جشن سا آٹھ پہر دل میں ہے
کتنی یاددوں کا شہر دل میں ہے
تجھ سے ملنے کی سرخوشی کے ساتھ
ایک اداسی کی لہر دل میں ہے
ہے ازل سے رخ فلک نیلا
کس قیامت کا زہر دل میں ہے
دھوپ نکلی ہوی ہے برف کے بعد
کون یہ صبح پہر دل میں
خشک ہوتی نہیں کسی موسم
غم کی اک ایسی نہر دل میں ہے
حیف ہے ایسی میزبانی پر
حسرت سیر دہر دل میں ہے