کچھ لوگ بھچا کر کانٹوں کو گلشن توقع رکھتے ہیں
کچھ لوگ بھچا کر کانٹوں کو گلشن توقع رکھتے ہیں
شعلوں کو ہوایں دے دے کی ساون کی توقع رکھتے ہیں
ماحول کے تپتے صحرا سے، حالات کی اجری شاخوں سے
ہم اہل جنوں بھولیں سے بھرے دامن کی توقع رکھتے ہیں
جب سارا اثاثہ لٹ جاے تسکین سفر ہو جاتی ہے
ہم راہنماوں کے بدلے رہزن کی توقع رکھتے ہیں
سنگین چٹانوں سے دل کے دکھنے کی شکایت کرتے ہیں
ظلمت کے نگر میں نورانی آنگن کی توقع رکھتے ہیں
وہ گیسوے جاناں ہوں ساغر یا گردش دواں کے ساے
اے واے مقدر! دونوں سے الجھن کی توقع رکھتے ہیں
Save this image
you must read this poetry also